تحریر: مولانا گلزار جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی | ماہ احساس میں ایک حساس ترین شخصیت کی اطاعت کی منظر کشی کی کوشش کے ساتھ حقیقتا اطاعت معصوم کس طرح کی جاتی ہے اسکی چند مثالیں پیش کرنے کی سعی کی جا رہی ہے امید کے قارئین محترم کے لیے، مفید اور قابل اقتداء ہوگی۔
مثال اول: مارے چھٹے آقا امام جعفر صادق علیہ السلام نے زیارت حضرت ابالفضل العباس علیہ السلام میں ارشاد فرمایا" سلام ہو عبد صالح پر جو ہر گام زندگی پر لمحہ با لمحہ مطیع و فرما بردار خدا و رسول رہا۔
لب عصمت سے نکلی ہوءی سند اطاعت دلیل ہیکہ جس سانچہ پیروی امام میں حضرت ابا الفضل ڈھلے ہیں دنیاء اطاعت میں اسکی نظیر نہیں ملتی اس لیے کہ عام حالات میں ،پر سکون حیات ، خوشی و مسرت کا زمانۂ ، عصر فرح و سرور میں حکم کی تعمیل میں سر نیاز جھکانا بہت نیک عمل ہے مگر کسی غضنفر کا غیض و غضب کے عالم میں امامت کے چشم و ابرو کے اشارے پر اطاعت کے سانچہ میں ڈھل جانا ہی کمال اطاعت ہے جسکی مثالیں صفحہ قرطاس پر رقم کرنے والی ذات عالی وقار کو عباس ابن علی ع کہتے ہیں۔
سانحہ کربلا کے ظاہری آغاز پر نظر کریں تو جس وقت حکم حاکم پر ولید بن عتبہ نے طلب بیعت کے لیے بلایا اس وقت امام عالی مقام دربار جبر و استبداد میں تنہا تشریف لے گیے اور اپنے بہادروں کو دروازہ پر اس ہدایت کے ساتھ روک دیا کہ اگر دربار میں میری آواز بلند ہوتو آپ حضرات چلے آءیں۔
جس وقت ولید نے یزید کا حکم سنایا اور آپ نے بیعت سے انکار فرمایا اور مڑ کر جانے لگے ہی تھے کہ مروان بن حکم نے ولید پلید سے کہا اگر آج حسین ع تیرے ہاتھ سے نکل گیے تو پھر کبھی نہ ملیں گے ابھی انھیں قتل کردے۔اس وقت شیر حیدری کی دھاڑ دربار میں بلند ہوءی" لا تہددنی بالموت یابن الزرقاء "اے زن نیل گوں چشم کی اولاد تو مجھے موت سے ڈرا رہا ہے اس آواز کا دربار خلافت میں گونجنا تھا اور غازی کے ذوق سماعت سے ٹکرانا تھا کہ سب سے پہلے حضرت ابا الفضل دربار میں داخل ہویے فرزند یداللہ کے دست زبر دست نے قبضہ شمشیر پر دستک دی ابھی تلوار شجاعت نے چہرہ سے نقاب الٹی ہی تھی کہ عصمت کے چشم و ابرو کے اشارے نے فورا روک دیا یہ وہ عجیب و غریب مرحلہ تھا جب دشمن حسین ع سے نظریں ملانے کی کوشش کر رہا تھا اور عبدیت کی معراج پر فایز عبد صالح اپنی اطاعت کا ثبوت دے رہا تھا۔
مملکت صبر کے شہزادے نے حکم امام پر دربار جبر و ستم میں صوم صمت کی عبادت کا فریضہ سرانجام دیا غازی کی تلوار کے ارادے سر وں کے انبار لگا دینے کے تھے مگر حکم امام نے اطاعت کا زیور گلے میں ڈال کر ضبط نفس کا نقش قدم بنادیا جو رہتی دنیا تک کے لیےمثیل و نظیر ہے مگر انکے لیے جن کو سفینہ احساس میں قرار کا شرف ملا ہو ورنہ بے حس جوان کا حساس عباس غازی سے کیا واسطہ غیض و غضب میں ضبط نفس کا ملکہ نہ ہو تو اطاعت کیسی یہ کوءی رسم نہیں ہے جس انعقاد کی دعوت پر پروسی جا سکے اس کے لیے اطاعت شعار جگر چاہیے جو اس ماہ احساس میں تربیت پاتا ہے۔